لاہور (ویب ڈیسک) اڈیالہ جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے لیے سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے مفید مشورے کالم میں لکھ دیے۔
انہوں نے لکھا کہ ’’ڈیئر قیدی جی! آپ تو بار بار کہا کرتے تھے یوٹرن اچھے ہوتے ہیں، ایک یوٹرن ملکی استحکام کیلئے بھی لے لیں، اگلے انتخابات تک چُپ کا روزہ رکھ لیں اور اپنا سارا زور اگلے الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے پر لگائیں۔ یہ ڈیل سب کیلئے قابل قبول ہوگی‘‘۔
روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں چھپنے والے اپنے کالم میں سہیل وڑائچ نے ’’مسافر بنام قیدی نمبر 804‘‘ کے عنوان سے لکھا کہ کوئی مانے نہ مانے اپنے تئیں تو مسافر خود کو جمہوری سمجھتا ہے اور آپ کو ذاتی طور پر علم ہے کہ مسافر نے 9 مئی کے واقعہ سے پہلے آپ کے پاس ذاتی طور پر اور صحافیوں نے اجتماعی طور پر سیاسی مصالحت یا مقتدرہ سے مصالحت کی تجویز پیش کی تھی۔ گزشتہ دو اڑھائی سال سے مصالحت کی رٹ لگا لگا کر مسافر خود کو شرمندہ محسوس کرنے لگا ہے کہ نہ مقتدرہ کو یہ بات اچھی لگتی ہے اور نہ ہی (ن) لیگ کو یہ تجویز پسند آتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آپ کے دو سال سے جیل میں ہونے اور بحران کے باوجود بھی انہیں یہ راستہ پسند نہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ لڑائی سے کبھی کوئی حل نکلا ہے نہ نکلے گا۔
ماضی کے واقعات سے سبق سیکھ کر ہی راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ سیاستدانوں کی مقتدرہ کے ساتھ کشمکش بھی رہی ہے اور وقتاً فوقتاً انہیں مقتدرہ کی سرپرستی بھی حاصل رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو انہیں نہ صرف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا بلکہ صدر کا عہدہ بھی دیا گیا۔ اس وقت وہ مقتدرہ کے محبوب رہنما تھے، مگر 1977 میں جب اقتدار سے ہٹائے گئے تو وہ معتوب بن گئے۔ اُس وقت بھی دو نقطۂ نظر تھے: کچھ کا خیال تھا بھٹو ضیاء الحق سے لڑائی نہ کریں، خاموشی سے جلاوطنی اختیار کریں اور اچھے وقت کا انتظار کریں۔ لیکن بھٹو اور ان کے جیالوں نے لڑائی اور مزاحمت کا راستہ چنا اور انجام ان کی پھانسی کی صورت میں نکلا۔ نہ عالمی اپیلیں کام آئیں، نہ سپریم کورٹ نے انصاف کیا اور نہ ہی احتجاجی تحریک جنرل ضیاء کو روک سکی۔
بعد ازاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی بھی مقتدرہ سے لڑائیاں ہوئیں، مگر انہوں نے بالآخر مفاہمت کو اپنایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بار بار اقتدار میں آتے جاتے رہے اور وقت کے ساتھ سیاست کا عملی ہنر سیکھ لیا۔ چاہے انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگر حقیقت یہ ہے کہ آج دونوں جماعتیں اقتدار میں شریک ہیں اور اسے ہی عملی سیاست کی کامیابی کہا جاتا ہے۔
قیدی جی! سیاسی تضادات نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ آپ کے چاہنے والے آپ کو احتجاج اور انقلاب کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں لانے کا خواب دکھا رہے ہیں، مگر درحقیقت یہ بیانیہ آپ کے لیے رکاوٹ بن چکا ہے۔ آہ و بکا، جھوٹ پر مبنی کہانیوں اور بد دعاؤں سے حالات نہیں بدلتے۔ پاکستان نہ بھٹو جیسا سانحہ دہرانا چاہتا ہے اور نہ ہی کروڑوں عوام کو مایوسی میں دھکیلنا۔ اگر مصالحت ممکن ہے تو یہی سب سے بہتر راستہ ہے۔ جیل سے باہر نکلنا ہی عملیت پسندی ہے، جبکہ ضد اور لمبی جدوجہد ایک صبر آزما عمل ہے۔ آپ ماضی میں بھی مقتدرہ کے ساتھ اقتدار بانٹنے کو درست سمجھتے رہے ہیں، اب بھی آپ کا اختلاف ذاتی ہے، اصولی نہیں۔ بہتر ہے کہ اس مشکل وقت سے نکل کر پارٹی کو مستقبل کی حکمرانی کے لیے تیار کریں۔
آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ یوٹرن لینا برا نہیں۔ تو پھر ایک یوٹرن ملکی استحکام کیلئے بھی لے لیجیے۔ اگلے انتخابات تک خاموش رہیں اور ساری توانائی الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے پر لگائیں۔ اس طرح حکومت کو فری ہینڈ ملے گا، مقتدرہ کے خدشات کم ہوں گے اور تحریک انصاف کو نہ صرف اپنے لیڈر کی رہائی ملے گی بلکہ پارلیمان میں سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع بھی حاصل ہوگا۔
یاد رکھیں! بظاہر آپ کے حمایتی نظر آنے والے دراصل آپ کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ آپ آنکھیں کھولیں، دوست اور دشمن کی پہچان کریں۔ وہی آپ کا حقیقی دوست ہے جو آپ کی رہائی اور سیاسی کردار کی بحالی چاہتا ہے۔ تاریخ آپ کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، فیصلہ اب آپ نے کرنا ہے۔